وسعت دشتِ حجر دیکھ کر ڈر جاتا ہوں
تجھ سے آگے کا سفر دیکھ کر ڈر جاتا ہوں
روز ڈھلتے ہویے سورج کی طرح شام گیے
میں بھی اک درد کے دریا میں اتر جاتا ہوں
وہ بھی چھپ چھپ کے بیٹھ کر کہیں روتی ہوگی
میں بھی راتوں کو ذرا دیر سے گھر جاتا ہوں
میں نے بھی جرمِ بغاوت کے ستم جھیلے ہیں
میں بھی اب لوگ جدھر جاییں ادھر جاتا ہوں
چل پڑا ہوں میں دنیا کے اصولوں پر وصی
میں بھی اب اپنی ہی باتوں سے مکر جاتا ہوں
--
No comments:
Post a Comment